ترکی کے وزیراعظم احمد داؤداوغلو نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی فوج شمالی شام کے سنی اکثریتی شہر اللاذقیہ میں اہل سنت مسلک کی آبادی کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روسی فوج جن علاقوں میں آپریشن کی آڑ میں کارروائیاں کر رہی ہے وہاں پر ترکمان اور سنی مسلمان مقیم ہیں۔ شامی حکومت روسی فوج کی مدد سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اللاذقیہ سے سنیوں اور ترکمانوں کو نکال باہرکرنا چاہتی ہے تاکہ للاذقیہ میں روسی اور شامی فوجوں کا محفوظ مرکز بنانے میں مدد لی جاسکے۔
عرب ٹی وی سے اپنے ایک انٹرویو میں ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ روسی فوج نے اب تک شام میں جتنے بھی حملے کیے ہیں ان کے نتیجے
میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامی ’’داعش‘‘ زیادہ مضبوط ہوئی ہے، روسی فوج شمالی شام کے اللاذقیہ شہر میں ترکمان اور سنی آبادی کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ چونکہ ترکمان اور سنی آبادی شامی حکومت کی حمایت نہیں کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں طرطوس اور اللاذقیہ میں نسل کشی کا سامنا ہے۔
روس کا جنگی جہاز مار گرائے جانے کے بعد ماسکو اورانقرہ میں پیدا ہونے والے تنازع کے حوالے سے ترک وزیراعظم نے کہا کہ ہم دو طرف کشیدگی کے خاتمے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، رابطے اور ہم آہنگی کے بغیر کوئی بھی کارروائی حادثے کا موجب بن سکتی ہے۔ شمالی عراق میں ترک فوج اس لیے داخل کی کہ وہاں پرداعش مضبوط ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ ترک فوجوں کی عراق میں مداخلت جارحیت نہیں بلکہ بغداد کے ساتھ تعاون ہی کی ایک شکل ہے۔